Wednesday, November 21, 2018

SHORT STORY-02

SHORT STORY-02: HASRAT LIYE MAR GAYI

Written By: Aziz Azmi, Israuli, Sarai Mir

 

 حسرت لئے مر گئی

کل اماں کی آنکھ چیک کروانے ڈاکٹر راشد صاحب کے دوا خانے گیا ، آنکھ  والے ڈاکٹر ابھی آئے نہیں تھے اس لئے اماں کو بنچ پر بیٹھا کرباہر چلا گیا ، تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو دیکھا کہ اماں کے پاس بیٹھی ایک عورت زاروقطار رو رہی ہے ، مجھے دیکھ کر خاموش تو ہوگئی ، لیکن آنسووں سے بھیگی اس کی آنکھوں میں اتنا درد اور سسکیوں میں اس قدر کرب تھا کہ اگر میں اس سے صرف یہ پوچھ بیٹھتا کہ آپ کون ہیں تو اسکا ضبط ٹوٹ جاتا اس کا صبر جواب دے جاتا اور اسکی آنکھیں پھر سے برس پڑتیں ، قبل اسکے کہ میں اماں سے کچھ پوچھ پاتا ، نرس نے آواز دی کہ آپکا نمبر آگیا ، اماں کو ڈاکٹر کو دکھایا دوا لی اور ہ دوا خانے سے باہر نکل گیا ، اماں کو جاتے دیکھ کر اسکی آنکھیں پھر چھلک گئیں ، ایسا لگا جیسے اماں سے وہ کچھ ایسا مانگ رہی ہو جو اماں کے بس میں نہیں ، اماں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے اپنی نم آنکھوں سے اس کےسر پر ہاتھ رکھتے ، صبر کی تلقین کرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئیں ۔
اولاد سے بچھڑنے کا درد کیا ہوتا ہے یہ دیکھ کر اماں اپنی آنکھ کے درد سے کہیں زیادہ اس عورت کے درد سے پریشان تھیں ، میں نے اماں سے پوچھا کہ یہ کون تھیں ، کہنے لگیں یہ  جاوید کی پہلی بیوی تھی جس کو اس نے دس سال پہلے صرف اس بنا پر چھوڑ دیا تھا کہ خوبصورت نہیں ہے ایسی شریف اور با اخلاق بیویاں کس کو کہاں نصیب ، لیکن اس کا نصیب پھوٹا تھا کہ جاوید جیسے کم عقل اور احساس سے عاری شخص سے اسکی شادی ہو گئی ۔

کچھ دنوں بعد پھر اسکی دوسری شادی ہوئی تو اس سے کوئی اولاد نہیں ، آج مجھے دیکھ کر تڑپ اٹھی اور ضد کرنے لگی اماں مجھے میری بیٹی سے ایک بار ملا دیں ، دس سال سے میں نے اسے دیکھا نہیں حجن اماں اس کی ایک جھلک پانے کے لئے میری آنکھیں ترس گئیں ، پل پل اس کے لئے مرتی ہوں ، جب سے یہ سنا کہ اسکی نئی امی نے پڑھائی چھڑا کر گھر کے کام میں لگا دیا  ، اس سے دن رات کام بھی لیتی ہیں اسکو مارتی بھی ہیں ، جاوید سے شکایت بھی کرتی ہیں تو کلیجہ پھٹ گیا ، میری بچی کیسے یہ دکھ برداشت کرتی ہوگی ، کیسے سہتی ہوگی ، رات میں روتی ہوگی تو مجھے یاد کرتی ہوگی ، میں اسکو اپنی باہوں پہ سلاتی تھی آج سنا ہے کہ اکثر بغیر بستر کے سو جاتی ہے ہائے میری بیٹی ، ہائے رے میری بد نصیبی ، کی ماں ہوتے ہوئے بھی ممتا کو ترس گئی ۔

اماں کیا وہ مجھے یاد کرتی ہے ، کیا وہ بھی میرے لئے روتی ہے ، ہاں بیٹا وہ تمھیں بہت یاد کرتی ہے میرے گھر آتی ہے تو اکثر روتی ہے کہتی ہے کاش میری امی کہیں مل جاتی تو انکے آنچل میں چھپ جاتی ، انکی آغوش سے لپٹ جاتی ، اپنا سارا دکھڑا سنا کراتنا روتی کہ سارے غموں کو دھو لیتی …  بس کر یئے اماں اب بس…  نہیں سنا جاتا ، اسکے دکھ ، اسکی باتیں اس سے زیادہ  نہیں سن سکتی میرا کلیجہ پھٹ جائے گا ، بس اماں  ایک بار مجھے میری بیٹی سے ملا دیں ، میں آپکا احسان کبھی نہیں بھولونگی ، یہ کہتے ہوئے وہ بے تہاشہ رو رہی تھی ، اس کا درد مجھ سے بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا ، لیکن میں مجبور تھی کیسے ملاتی ، فائزہ کو کیسے یہاں بلاتی ، جاوید کو پتہ چلتا تو آسمان سر پر اٹھا لیتا ، ایسے خبت الحواس کے منھ کون لگتا-

طلاق کے بعد جب وہ اپنے گھر جانے لگی تو اس بے مروت  نے اس کا ہاتھ مروڑ کر بیٹی چھین لی تھی اور وہ روتی ، بلکتی ، چیختی ، چلاتی چلی گئی اور تب سے آج تک اس نے اپنی بیٹی کو نہیں دیکھا جاوید اس قدر سخت دل اور بے رحم کہ آج تک کبھی اس نے فائزہ کو اسکے ننیہال تک نہیں بھیجا ، اسکے نانا اور ماما نا چاہتے ہوئے بھی فائزہ کو کئی بار لینے آئے لیکن اس بے مروت نے انھیں فائزہ کو دینا تو دور ملنے تک نہیں دیا وہ غریب بیچارے ہار گئے اب تو آتے بھی نہیں ۔

اماں سے اس بے بس ماں کی فریاد اور دکھ سن کر میں بھی بڑا دکھی ہوا ، اماں سچ کہتی ہیں باپ کے دل میں اولاد کی محبت ماں کی وجہ سے ہے ، اگر ماں نہیں تو دوسری شادی کے بعد باپ کی محبت پہلی اولاد کے تئیں پھیکی اور ماند پڑ جاتی ہے ۔
میں کچھ دنوں بعد چھٹی گزار کر سعودی عرب واپس چلا گیا ، لیکن اکثر اس لاچار ، بے بس ، بدنصیب ماں کے بارے میں سوچتا رہتا کہ پتا نہیں بچاری کیسے اپنی بیٹی سے یوں بچھڑ کر دن ، رات  گزارتی ہوگی ، کس اذیت سے دوچار ہوتی ہوگی ، اماں کہ رہی تھیں دوسری شادی کے بعد اس سے کوئی اولاد نہیں ہوئی ، اس کا دوسرا شوہر ، پہلے والے سے بھی زیادہ نالائق اور بد تمیز ہے ، جاوید تو بد ماغ اور جاہل تھا یہ تو شرابی کبابی بھی ہے ، رات کو شراب پی کر آتا ہے تو بیچاری پر قہر ڈھاتا ہے ، کبھی کبھی تو اس قدر مارتا ہے کہ کئ دن پستر سے اٹھ نہیں پاتی ، لیکن ماں ، باپ کی عزت اپنی قسمت ، خدا کے فیصلے پر صبر کا گھونٹ پی کر وقت گزارتی ہے ، کسی سے شکایت کرنا تو دور اپنے رب سے بھی شکایت نہیں کرتی کہ جب اللہ نے میرے مقدر میں یہی لکھا ہے تو کس سے شکایت کروں ، کہاں جاوں ، میاں کے گھر سے نکالی گئی عورت کا نہ کوئی گھر ہوتا ہے نہ کوئی مقام اب  یہی میرا گھر یہی میرا ٹھکانہ ہے ۔
چاہے میرا اللہ جس حال میں رکھے ۔

گھر پرجب فون کرتا تو سوچتا کہ کسی دن  اماں سے اس کے بارے میں پو چھونگا ، لیکن سسرال سے لیکر میکے تک  بیگم کی اتنی لمبی بات  کہ بیگم کی باتوں میں ہی الجھ  کر رہ جاتا اماں سے اسکے بارے میں پوچھنا ہی  بھول جاتا ۔ آج اتفاق سے فون کیا تو میڈم کچن میں تھیں آٹا گوندھے ہوئے ہاتھ سے فون اٹھانا مشکل تھا تو اماں نے ہی فون اٹھا لیا ، سلام کرتے ہی اماں سے پہلے یہی پوچھ بیٹھا کہ جاوید کی پہلی بیوی سے کبھی بات ہوتی ہے کیسے ہے بیچاری - اماں پل بھر کے لئے تو خاموش ہو گئیں پھر بڑے مغموم لہجے میں بولیں کہ بیٹا اس کا تو کچھ دن پہلے انتقال ہو گیا ، انا للہ و انا الیہ راجعون ۔۔

یہ سنتے ہی جیسے آواز حلق میں اٹک گئی ۔ تھوڑی دیرتک فون اٹھائے کھڑا رہا جیسے بولنے کے لئے اب کچھ بچا نہیں ۔
’’ دعاء پڑھتے ہوئے اماں سے کہا ، اللہ اسکی روح کو سکون بخشے!  اچھا  ہوا بیچاری مر گئی ‘‘اسکا شوہر صبح و شام اس کو مارتا تھا اس پر ظلم کرتا تھا ۔ کب تک سہتی ؟ کہاں تک برداشت کرتی ؟ ابھی کچھ دن پہلے آپ نے ہی تو کہا تھا کہ ایک دن ہاسپیٹل سے اسکا فون آیا تو ملنے گئیں بہت اداس تھی ، ہاسپیٹل آنے کی وجہ پوچھنے پر بتایا کہ ’’آ ج پھر شوہر نے بہت  مارا ہے۔ اس کی آنکھ کے گرد گہرا نیلا حلقہ بن گیا  تھا، چہرے پر انگلیوں کے نشان تھے۔ وہ بالکل مرجھائی ہوئی تھی ، اس کی شکل سے لگتا تھا اب ٹھیک نہیں ہوگی کتنی حسرتوں سے اس کی ماں نے بیاہ کے دیا تھا ، کہ پہلا شوہر تو نالائق نکلا یہ غریب ہی صحیح لیکن میری بیٹی کا خیال تورکھے گا ۔ اسکی ماں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر اسکو بھی جہیز دیا تھا ، لیکن افسوس کہ جاوید احساس کمتری کا شکار تھا یہ تو احساس سے ہی عاری تھا ۔

اماں کیا فائزہ اس کی میت پر گئ تھی یا جاوید اس وقت بھی نہیں جانے دیا ، نہیں بیٹا اس کے مرنے کی خبر سن کر جب فائزہ رونے لگیں تو جاوید بھی رو پڑا ، بہت پچھتایا ، بہت شرمندہ ہوا  فورا گاڑی منگوایا  فائزہ کو لیکر ہم سب اس کے گھر گئے ، دس سال بعد ماں کو مردہ دیکھ کر فائزہ بے حوش ہوگئ ، ماں بیٹی کو  دیکھنے کی حسرت لئے اس دنیا سے رخصت ہو گئی  لیکن جیتے جی نہ تو فائزہ کو ماں کا دیدار نصیب ہوا اور نا ماں کو بیٹی کا ۔                                                          

اے لوگو ! طلاق ایک قبیح فعل ہے اس سے بچو ، ایک دوسرے کے ساتھ محبت ، حسن سلوک ، صلح و آشتی  کے ساتھ زندگی  گزارو ، اور اگر یہ ایک دوسرے کو سمجھنا ممکن نہ ہو تو سمجھو تے کے ساتھ زندگی گزار دو لیکن اپنی عورتوں کو طلاق مت دو ۔۔سن پر ظلم مت کرو ،  اپنے بچوں کو سوتیلے پن اور ظلم میں دھکیل کر انکی زندگیوں کو دشوار نہ بناؤ۔۔

اللہ ہمیں ہدایت دے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق دے کہ کسی عورت ، کسی اولاد کو اس درد و کرب سے نا گزرنا پڑے ۔

Note: This Short story has been written by One of my friend, Mr. Aziz Azmi. This is a touching heart story to me, that's why I shared this story here in my Blog with Writer's Permission....... Thank You. 

No comments:

Post a Comment